گلودو کبوتر سیالکوٹی کبوتروں کا جدامجد

گلودو کبوتر سیالکوٹی – محترم قارئین یہ غالباً 90 کی دہائی کی بات ہے۔ جب اپنے بزرگوں سے چھپ کر ایک دوست اور ہم جماعت کے ساتھ مل کر کبوتر پروری کا شوق شروع کیا۔ وہ دو بھائی اور تیسرا میں، ہم تینوں پیسے ملاتے اور کبوتر خریدتے۔ اس زمانے میں ٹیکسالی کے داخلی راستے پر گھوڑوں کے پانی پینے کے لیے ایک خوض بنا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سڑک پر ایک بڑا پنجرہ رکھے کسی شوقین نے دڑبی بنا رکھی تھی۔ میرے دوست کا اس پر بڑا اعتماد تھا کہ یہ بندہ اچھے کبوتر لاتا اور فروخت کرتا ہے۔

تحریر و ترتیب: استاد محمد حبیب مغل

گلودو کبوتر کی پہچان

ان دنوں ۳۰ روپے کا بہترین جوڑا لگا ہوا مل جاتا تھا۔ ایک دفعہ جب ہم اس سے کبوتر لینے گئے تو اس نے ہمیں ایک سرمئی عرےی سا چینا کبوتر دیا۔ دم اور باہر کے دس دس پر نیم سیاہ گردن پر دونوں جانب چھلے یعنی سفید پر۔ نوک، پلک، پنجے اور آنکھیں بھی عرےی گرے رنگ کی، اس کبوتر کا کھڑے ہونے کا انداز بے حد شاہانہ تھا۔ اس کبوتر کے ساتھ اس نے ہمیں اسی نسل کی پھیکی مادہ دی اور کہا کہ جاؤ بچو یاد ہی کرو گے جوڑا لگا ہوا ہے۔

گلودو کبوتر سیالکوٹی

ان دنوں ہم لگے جوڑے کو بڑی اہمیت دیتے تھے کہ اس جھنجھٹ سے بڑی جان جاتی تھی۔ گھر آکر کچھ دن بعد پتا چلا کہ دونوں نر ہیں۔ خیر ان دونوں کبوتروں کو باندھ کر چھوڑ دیا اور اپنے گھر میں موجود دو مادیوں سے لگا دئیے۔ جب وہ پکے جوڑے لگ گئے تو ہم نے ان کے پر کھول دیئے۔ کافی دن وہ دونوں ہماری چھت پر موجود سیمنٹ کی بنی ٹینکی پر بیٹھتے اور نیچے آجاتے۔

گلودو کبوتر کی پرواز کا انداز

ایک دن ان میں سے ایک کبوتر اڑا اور ہمارے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے کیونکہ اس کبوتر کا اڑنے کا طریقہ انتہائی عجیب تھا۔ اس نے چھت پر دو سے تین چکر لگائے اور بعد میں قلابازیاں کھاتا ہوا ایک ہی جگہ آسمان میں بند ہو گیا۔ سارا دن انتظار کرتے رہے کہ اب آتا اب آتا ہے مگر کبوتر ۴ بجے تک بالکل نظر نہ آیا۔ اس وقت ہم کبوتروں کو دانہ ڈال کر بیٹھے تھے کہ بالکل اسی طرح قلابازیاں کھاتا نیچے آیا اور گھر پر ۴ سے ۵ چکر کاٹ کر بیٹھ گیا۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔

پھر ہمارا معمول بن گیا کہ ہم نے اپنے کبوتروں کے ساتھ ان دونوں کبوتروں کو اڑادینا۔ دونوں ایک ہی طرز میں اڑتے تھے۔ وہ جونسرے بچے بھی نکالتے تھے اور جیسے آج کے بٹیرے ہیں ایسے بچے بھی نکالتے تھے۔ ان میں سے کچھ بچے باپ کی طرز پر ہی اڑتے تھے۔ ایک دن سخت گرمی کا موسم تھا بڑا چینا کبوتر اوپر سے آیا قلابازیاں شروع کی تو اس کا شاید پر شل ہوگیا یا پٹھا چڑھ گیا۔ وہ کافی بلندی سے ہمارے گھر سے کچھ فاصلے پر ایک تالاب میں گر گیا۔ ہم نے بڑی دوڑ لگائی مگر اس کبوتر کو پہلے ہی اس تالاب میں موجود کتوں نے زخمی کردیا تھا۔ یہ ہمارا سب سے غمگین دن تھا چھوٹا کبوتر ہمارے پاس کافی دیر رہا مگر پرواز بڑے میں زیادہ تھی۔

علی والے اور چھت والے کبوتروں سے تعلق

یہ سارا واقعہ میں نے کینیڈا میں موجود اپنے دوست مرزا زوار صاحب کو سنایا اور کبوتر کا حلیہ بھی بتایا۔ انہوں نے کہا مغل صاحب وہ ایک نمبر گلودو کبوتر تھا۔ جس کا خون آج کے تقریباً تمام سیالکوٹی کبوتروں میں پایا جاتا ہے۔ بڑی تگ و دو کے بعد اس نسل کی کچھ تصاویر اکٹھی کی۔ نامور سینئر استاد بابا صدیقی کہتے تھے کہ یہ کبوتر علی والے اور چھت والے کبوتروں کے بلاواسطہ جد امجد ہیں اور بٹیرے اور 35 والوں کے بالواسطہ جد امجد ہیں سننے میں آیا ہے۔ بہرحال ایک بات بہت محسوس ہوتی ہے کہ ہم نے بھیڑچال میں بڑی بڑی اچھی نسلوں کو خود ختم کردیا۔

Social Sharing

Leave a Reply