کبوتروں کے پر ـ استاد خان محمد بارا

کسی دوست نے پر کی کوالٹی پر سوال کیا تھا سوچا ایک مکمل آرٹیکل لکھ دیتا ہوں. تاکہ سب دوستوں کا بھلا بھی ہو جائے۔ آج میں اپنی ناقص معلومات کی بنا پر کبوتروں کے پر کے مختلف حصوں پر بات کرنے کی کوشش کرونگا. اللہ کریم میری اس کاوش میں میری مدد فرمائے آمین

کبوتر کا شولڈر یا کندہ

کبوتروں کے پر

کبوتر کا کندہ یا شولڈر لمبا ہونا چاہیے۔ اس کی جتنی لمبائی بڑھتی جائے گی شولڈر پرواز میں سہولت فراہم کرتا جائے گا۔ جتنا لمبا شولڈر ہو گا اتنا ہی لمبا کبوتر کا پلا بھی ہوتا جائے گا۔ پلا جتنا زیادہ لمبا ہو گا اتنی ہی زیادہ کبوتر کے پر کے نیچے ہوا آتی جائے گی۔ اور جتنی ہوا زیادہ پر کے نیچے آئے گی اتنی ہی زیادہ کبوتر کو پرواز میں آسانی ہوتی جائے گی۔

جب کبوتر پرواز میں کم سے کم انرجی استعمال کرے گا تو بالکل سیدھی بات ہے اتنا ہی زیادہ وقت ہوا میں رکا رہے گا۔ کم از کم تھکاوٹ کا شکار ہو گا۔ اب کندھے میں دو تین چیزیں دیکھنا بہت ضروری ہیں لمبا کندہ یا شولڈر تو ہو گیا۔

کبوتروں کے شولڈر کی بناوٹ

  شولڈر کی بناوٹ پر غور کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر تو شولڈر یا کندہ بھاری ہے بھاری سے مراد کندہ موٹا ہے۔ اس پر گوشت زیادہ ہے تو یہ اچھا سائن نہیں ہے۔ کیونکہ کبوتر نے دوران پرواز اسی کندے کو حرکت میں رکھنا ہوتا ہے۔ تو اگر اس کا اپنا ہی وزن زیادہ ہوگا تو کبوتر کی تھکاوٹ کا خود ہی باعث بنے گا۔ جو کبوتر کی پرواز کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گا جو کہ ایک منفی سائن ہے۔ اس لیے کندہ وزنی ایکسٹرا گوشت والا نہیں ہونا چاہیے۔

دوسری بات کندے کی چوڑائی بہت اہمیت کی حامل ہوتی۔ مناسب چوڑائی ہونی چاہیے نا کم نا زیادہ اور اس چوڑائی میں جو خاص الخاص چیز ہے وہ ہے کندھے کا کرؤ یا جھکاؤ۔ کندے کو ہر حال میں  بالک سیدھا اور سپاٹ نہیں ہونا چاہیے۔ جب آپ کندے پر انگلی پھیریں تو وہ سینٹر سے اونچا اور آگے پیچھے سے سلوپ کی شکل میں ہونا چاہیے جو بیسٹ کندہ ہوتا ہے۔

کندھے کے اوپر پر سخت انداز میں چمٹے ہوئے ہونے چاہیے نرم اور بھدے پر نہیں ہونے چاہیے۔ کبوتر کے پر کو پکڑ کر کھولا تو انگلیوں کو پر میں کھچاو محسوس ہو۔ یعنی کبوتر کا کندہ واپسی سپرنگ کی طرح کرے تو زیادہ اچھا ہے۔ 

نوٹ 
جدید کبوتر بازی میں سپرنگ کی صورت میں ہونے والا کندہ زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اس کے رزلٹ بھی پازیٹو ہیں۔ لیکن جن کبوتروں کے کندوں میں یہ خوبی نا بھی ہو تو وہ کبوتر بھی بے مثال اڑتے ہوئے دیکھے ہیں۔ جن کو حرف عام میں ڈھل پرا کبوتر بھی کہا جاتا تھا۔ وہ کبوتر تو اپنے پر ہی زمین پر گھسیٹ کر چلتے تھے لیکن اڑتے وہ بھی اچھا تھے اب وہ کبوتر شاید ناپید ہو چکے ہیں اب دیکھنے کو نہیں ملتے۔

بغل کے پر

کبوتروں کے بغل کے پر

کبوتر کی بغل کے پر زیادہ سے زیادہ لمبے ہونے چاہیے۔ جتنے بغل کے پر بڑے ہونگے اتنی ہی زیادہ پروں کے نیچے ہوا کو رکھ سکیں گے۔ جو دوران پرواز کبوتر کو کم از کم اپنی انرجی اور اپنی طاقت استعمال کریں گے۔ جتنی کم طاقت استعمال ہو گی اتنا ہی زیادہ کبوتر کو پرواز میں رلیف ملتا جائے گا۔ کبوتر لمبی پرواز کرے گا۔ بغل کے پروں کی جتنی چوڑائی بڑھتی جائے گی اتنی ہی اس کی بغل کی پیکنگ مضبوط ہوتی جائے گی۔ جن کبوتروں کے بغلوں کے پر زیادہ چوڑائی میں ہوتے ہیں ان کا پلا کھولنے سے جسم میں اور بغل کے پروں کے درمیان گیپ نظر نہیں آتا۔ بلکہ بغل کے شروعاتی پروں کی ایک تہہ پلا کھولنے کے باوجود نظر آئے گی جو کبوتر کو دوران پرواز مدد فراہم کرتی ہے۔ جس سے کبوتر پرواز میں آسانی محسوس کرتا ہے۔

کبوتر کے آخری دس پر

دیکھنے میں آیا ہے کہ آخری دس پروں پر مختلف اساتذہ اکرام کی مختلف رائے پائی جاتی ہے۔ میرے نزدیک ہر استاد کی آراہ قابل احترام ہے۔ میں کسی کی بھی علمی گفتگو کی نفی نہیں کرتا۔ لیکن میرا ایک اپنا نقطہ نظر ہے ہو سکتا ہے بہت سے دوست اور اساتذہ اکرام اختلاف کریں۔ لیکن میں جو کچھ سیکھ چکا ہوں اس کی بنیاد پر ہی بات رونگا۔ 

کبوتروں کی بغل کا پہلا پر

اکثر استاد یہ کہتے ہوئے سنے گئے ہیں کہ دس پروں میں سے بغل کے پروں کے بعد جو پہلا پر ہوتا ہے وہ بغل کے پروں سے بڑا ہونا چاہیے۔ تو مجھے یہ بات سن کر حیرت ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کبوتر کے آخری دس پروں میں پہلے پر سے دوسرا بڑا ہوتا ہے اسی طرح تیسرا چوتھا بڑھا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ سات پر تک جاتا ہے۔ آخری چار پر مختلف شیو میں ہوتے ہیں۔

پہلا پر فطری بات ہے کہ ایک مکمل پلا ہو تو بڑا ہی ہو گا۔ اس میں کونسی راکٹ سائنس ہے چونکہ بغل کے پروں کی ایک علیحدہ ساخت ہوتی ہے اور آخری دس پروں کی علیحدہ ساخت ہوتی ہے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے جب شوقین دوست یہ بات کرتے ہیں کہ پہلا پر بغل کے پروں سے لمبا ہونا چاہیے۔ میں یہ بات ایک مکمل پلے کی کر رہا ہوں جو مکمل نہیں ہوتا اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آخری دس پر بہت خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان کا پرواز میں سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ اس لیے ان دس پروں کا اپنی کوالٹی میں اعلی ترین ہونا نہائیت ضروری ہے۔ ان پروں کے شہتیر نلی یا تیلی باریک اور لچک دار ہونا نہائیت ضروری ہے۔

تیلی کی قسمیں

باریک نمدار چمک دار اور لچک دار تیلی بہترین اور کوالٹی میں سب سے زیادہ اچھی تیلی ہوتی ہے۔ جو موسم کی مختلف کیفیات میں کارگر ثابت ہوتی ہے اور موسم کے تبدیل ہونے کی صورت میں بھی کبوتر کو سپورٹ کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک تیز ہوا آ جاتی ہے تو ایسی تیلی کے کبوتر پروں میں لچک ہونے کی وجہ سے ہوا میں بھی ہوا کے مخالف آسانی سے اڑ سکتے ہیں۔ یہ لچک آخری چار پروں میں ہوتی ہے

اگر یہ چار پر ہوا میں بینڈ نہیں ہوتے تو کبوتر کو ہوا کھینچ کر لے جائے گی۔ جو کبوتر تیز ہوا کا مقابلہ کر کے اور ایک اچھی پرواز دے کر گھر واپسی کرتے ہیں۔ ایسے پر کی تیلی لچک دار چمکدار باریک ملائم اور تر ہوگی۔ ایسی تیلی کے پلے کے آخری پروں کو بینڈ دے کر دیکھیں تو وہ اسانی سے بینڈ ہو جائیں۔

سفید رنگ کی تیلی ۔ یہ تیلی دوسرے درجے میں شمار ہوتی ہے اس سفید رنگت کی تیلی میں قدرے خشکی آ چکی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے یہ تیلی تر بھی نہیں رہتی۔ اس کے آخری چار پر کو بینڈ دے کر دیکھیں تو آپ کو تھوڑی سخت محسوس ہو گی۔ اس کا پتہ بھی پہلی پوزیشن والی تیلی سے کچھ بھاری ہونگا۔ یعنی تیلی کے تبدیل ہونے کے ساتھ ساتھ پتہ بھی اپنی اصل حالت میں تبدیلی لاتا جائے گا۔ ایسے پر کے کبوتر زیادہ تیز ہوا کا مقابلہ نہیں کر پاتے۔ ہلکے درجے کی ہوا میں ایسے کبوتر چلے جاتے ہیں ۔

کبوتروں کے پر ـ استاد خان محمد بارا

سفید خشک اور پتے سے ابھری ہوئی تیلی۔ اس تیلی کے کبوتر بالکل بیکار پر کے کبوتر ہوتے ہیں۔ ایسی تیلی کے کبوتر خشک اور ہوا دار موسم میں بھی نہیں اڑتے۔ ان کے آخری چار پر کو بینڈ دے کر دیکھا جائے تو بہت سخت ہو چکے ہوتے ہیں ۔

انکی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کی تیلی پر نظر دوڑائیں تو یہ تیلی پر کے پتوں سے اونچی ہو چکی ہوتی ہے۔ جو بہت نقص والی چیز ہوتی ہے اس میں باریک باریک دراڑیں پڑ چکے ہوتی ہیں۔ اور بعض میں تو قدرے موٹی دراڑیں بھی پڑ چکی ہوتی ہیں تیلی کا رنگ سفیدی کی طرح کا خشک سفید ہو چکا ہوتا ہے۔ نیچے سے یہ تیلی چوڑائی میں بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایسی تیلی کا پتہ موٹا اور بھاری ہو چکا ہوتا ہے۔ جو اس تیلی سے بھی بڑی خرابی ہوتی ہے۔

کبوتروں کے پر کی تیلی میں خرابیوں کی کچھ وجوہات

علاقے کا پانی خشک ہونا خشکی پیدا کرنے والا پانی ہو گا تو پروں کی تیلیوں پر اثر انداز ہو گا ۔ 
خشک اور ٹھنڈی ہواؤں والا خطہ کے کبوتر بھی اسی طرح پر خراب کریں گے۔۔ 
زیادہ نم رہنے والا موسم بھی اسی خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔ کیونکہ زیادہ نمی ہونے کی وجہ سے کبوتر پانی کم استعمال کرتے ہیں اور زیادہ نم رہنے والے موسم کے علاقوں کا پانی اکثر خشکی پیدا کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں

بچاو کا طریقہ

ایسے علاقے جن میں پانی خشکی زیادہ ہو اس علاقے کے دوست شوقین اپنے ہر قسم کے دانے میں سرسوں کا استعمال لازم کریں۔ لیکن سردی میں سرسوں بند کر کے توریہ کا استعمال کریں۔ ایسے علاقوں میں آئلی دانا نہائیت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ مہینے میں ایک بار کیلشیم کا استعمال ضرور کریں اور اگر ہو سکے تو ایسے وٹامن جن میں منرل کی مقدار زیادہ ہو ان کا مہینے میں دو دن استعمال کریں۔ انشاء اللہ کبوتر ان نقائص سے پاک رہینگے۔

کبوتروں کے آخری چار پر

آخری تین پر برابر
نواں پر بڑا دسواں اور آٹھواں برابر 
آخری دو پر برابر اور آٹھواں چھوٹا پر
آٹھواں نواں دسواں پر ایک دوسرے سے بڑے

دوستو یہاں پر شوقین حضرات میں بڑا کنفیوژن پایا جاتا ہے جو حقیقی طور پر بہت سے مسائل سے بھی دو چار کرتا ہے۔ جو مس گائیڈنیس کا نتیجہ کی وجہ ہوتا ہے۔ کچھ میرے جیسے نااہل یہ کہتے ہیں جہاں سے بھی تین یا چار پر برابر کا کبوتر ملے اٹھا لو یا جہاں سے بھی آٹھواں دسواں برابر اور نواں بڑا پر والا کبوتر ملے اسے بھی اٹھا لو۔ یہ سب غلط تعلیمات ہے۔ کیونکہ پر کبوتر کے وجود کا ایک حصہ ہے کبوتر کے وجود کے اس کے علاوہ بھی حصے ہوتے ہیں ان کا بھی اپنی کلاس میں اچھا ہونا نہائیت ضروری ہے اس لیے ایک چیز
کا بہتر ہونا اور دوسروں کو نظر انداز کر دینا دانشمندی نہیں ہے۔

 تین پر برابر دیکھ کر کچھ دوست تو دیوانوں کی طرح اس کبوتر کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ آخری تین پر اتنے چھوٹے ہو گئے ہیں کہ ساتویں پر کے برابر ہو گئے ہیں۔ اس نقص پر دھیان دینے کی بجائے وہ تین پر برابر دیکھ کر ہی اپنے ہوش میں نہیں رہتے۔ قصور ان بچاروں کا بھی نہیں ہے جو تعلیمات ان کو ملی ہوتی ہیں وہ اس پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں۔

یہ چار قسمیں جو بیان کی گئی ہیں ان میں ایک قسم ہی ایسی ہے جو اچھی نہیں ہوتی اور وہ ہے ساتواں آٹھواں نواں اور دسواں پر ایک دوسرے سے بڑا ہونا۔ ایسے کبوتر 95 فیصد ان بریڈ ہونے کی وجہ سے پروں کی ساخت اس طرح کر لیتے ہیں جو بہت غلط سائن ہے

کبوتروں کے پروں کی بناوٹ

بہترین بناوٹ یہ ہے کہ کبوتر کے پر خنجر کی طرح کی ساخت رکھتے ہوں تیلی باریک نمدار لچک دار باریک اور پتوں سے باہر نکلی ہوئی نا ہو۔ لاہور میں تیز پر کے کبوتر کامیاب پر تصور کیے جاتے ہیں اسی طرح ہر علاقے میں کبوتروں کے پروں کی مختلف ساخت اس علاقے میں کامیاب ہیں اس لیے اس موضوع کو نہیں چھیڑتے۔ لیکن ان سب سے بھی اوپر ایک خاص چیز ہونا نہائیت نہائیت اور نہائیت ہی ضروری ہے وہ ہے کبوتروں کے پروں کی لمبائیاں مکمل ہونا۔ اگر لمبائیاں مکمل نہیں ہیں تو یہ چار کی چار قسمیں ہی بیکار ہیں۔ 

پھر اگر آخری دس پروں کی پیکنگ مکمل نہیں ہے تو لمبائیاں بھی بیکار ہیں اور اگر پلا ہی بھاری ہے تو پیکنگ لمبائیاں اور چار قسمیں ہی بیکار ہیں اور اگر پلے کی تیلیاں ہی خراب ہو چکے ہیں تو پلے کی باقی تمام خصوصیات زیرو ہو گئیں۔ اس لیے ایک اچھے پلے میں ان سب چیزوں کا بیک وقت اکٹھا ہونا بہت ضروری ہے۔

چھوٹے پلے کے کبوتر سخت موسم میں کھلے اور بڑھے پلے کے کبوتروں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیونکہ سخت گرمی میں اڑتے ہوئے کبوتر کو وجود کے ہر حصے کا رلیف ملنا نہائیت ضروری ہے یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں جب اکٹھی ہو جاتی ہیں تو کبوتر کو ایک بڑا رلیف فراہم کرتی ہیں جو دوران پرواز بہت ہی کارگر ثابت ہوتا ہے جس سے سخت موسم میں بھی کبوتر لمبی پرواز کر جاتے ہیں۔

Social Sharing

3 Comments on “کبوتروں کے پر ـ استاد خان محمد بارا”

Leave a Reply