شوق کبوتر پروری کے ساتھ اچھے اخلاق کا ہونا

شوق کبوتر پروری کے ساتھ اچھے اخلاق کا ہونا – اسلام علیکم کیسے ہیں سب عزیز ترین دوست۔ امید کرتا ہوں کہ مالک کائنات اللہ رحیم کریم بزرگ برتر و اعلی کی عنایات سے مستفید ہو رہے ہونگے۔ انشاء اللہ۔ الحمد اللہ رب العالمین۔

شوق کبوتر پروری- Ustad Bao Shams Party

استاد خان محمد بارا

پچھلے کئی مہینوں سے ایک بات محسوس کر رہا تھا۔ تو آج سوچا اپنے شوقین بھائیوں سے بھی یہ بات شیئر کروں۔ جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار فوائد حاصل ہوئے ہیں۔ بالکل اس کے برعکس سوشل میڈیا نے بہت ساری منفی غیر منطقی اور اخلاق سے گھری ہوئی باتوں کو بھی پھیلانے میں اپنا خاص کردار ادا کیا ہے۔

اکثر گروپوں میں شوقین دوستوں کو دیکھا ہے۔ وہ خود کو اعلی اور برتر ثابت کرنے کے لیے ہر حد کو کراس کر رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ بات گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے۔ ایک طرح کی ہیجانی کیفیت طاری ہو جانے کے بعد وہی دوست ایک دوسرے کو مار دینے کی دھمکیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں.

یہ انتہائی بری اور اخلاقی اقدار سے گری ہوئی باتیں ہیں۔ نہائیت ہی افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس میں اکثر نامور استاد اور نامور پارٹیاں پورے زور شور سے اور فریضہ سمجھ کر اس میں اپنے آپ کو بہتر اور ناقابل شکست ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ جس سے ہمارے امن کے شوق کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑھتا ہے۔

شوق کبوتر پروری میں خود کو بڑا سمجھنا

میری تمام معزز اساتزہ اکرام سے بڑی مودبانہ گزارش ہے۔ اپنے شاگردوں کو کبوتر پروری کے ساتھ ساتھ اخلاق برداشت اور عاجزی کا سخن بھی تعلیم دیں۔ ہمارے شاگرد بھی ہمارے بچوں کے مانند ہیں۔ اگر یہ ان ضروری صفات سے عاری ہونگے تو ایسے ناخلف شاگرد کسی استاد کے لیے بھی باعث رحمت نہیں ہو سکتے۔ بلکہ باعث زحمت اور باعث شرمندگی ہونگے۔

اساتزہ اکرام بھی مثبت رویوں کا باعث بنیں۔ تاکہ ان کے زیرسایہ شاگرد بھی ان رویوں کو دیکھ کر اپنے آپ کو بہتر کر پائیں۔ سبق حاصل کر سکیں کیونکہ استاد کی طبعیت سے شاگرد بھی سبق سیکھتے ہیں۔ عزت دار اور قابل استاتزہ تو اب گروپوں میں اول تو شامل ہی نہیں ہوتے۔ اگر بصد مجبوری کسی گروپ میں ہوں بھی تو صرف اس خوف اور ڈر سے بات ہی نہیں کرتے۔ کہ کوئی بدتمیزی ہی نا کر دے۔

آپ خود سوچیں جب استاد عزت گنوانے کے ڈر سے خاموش رہنے لگے۔ تو ایک دوسرے تک علم کی منطقلی کیسے ممکن ہو گی۔ عجیب زمانہ آ گیا ہے۔ علم بانٹنے والوں کو بھی منفی رویوں کی مار سہنی پڑتی ہے۔ جب اساتزہ اکرام اس قبیع ظلم کا شکار ہونگے تو آگے کیا سبق جائے گا۔ کوئی بھی انسان حرف آخر نہیں ہوتا۔ غلطی ہم سب سے سرزد ہو سکتی ہے۔ غلطی کر کے اس پر ڈٹے رہنا تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

شوق کبوتر پروری میں استاد اور شاگرد

غلطی مان لینا تسلیم کر لینا انسان کے بڑے ہونے کی اخلاقی طور پر سنجیدہ پروقار اور بااخلاق ہونے کی اعلی ترین مثال ہے۔ ہر شاگرد کا حق ہے کہ وہ استاد صاحبان سے سوال کرے سوال کا جواب آتا ہو تو جواب ضرور دینا چاہیے جواب نا آتا ہو تو غلط جواب نہیں دینا چاہیے کیونکہ شاگرد استادوں کی باتوں کو اتھینٹک سمجھتے ہیں اس طرح غلط تعلیم پا کر بیچارہ ساری زندگی گمراہی کے راستے پر ہی بھٹکتا رہے گا۔ اگر ہم کسی کو سیدھا راستہ نہیں دکھا سکتے تو گمراہ کرنا ظلم ہے۔

سوال نا آتا ہو تو سیدھا کہہ دیں کہ مجھے اس بارے میں علم نہیں ہے۔ کیونکہ کوئی بھی انسان کسی بھی علم میں سو فیصد مکمل نہیں ہوتا۔ فراغ دلی سے بتانے اور سمجھنے سے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں تو ہم ان پر قدغن کیوں لگا رہے ہیں۔ میری ناقص عقل یہ سمجھ رہی ہے کہ اگر ہم شوقین دوستوں نے اپنے رویوں کو اسی ڈگر پر رکھا تو بہت جلد وہ دن بھی آئے گا کہ شوق کبوتر پروری نفرت کا نشان سمجھا جانے لگے گا۔

میری دعا ہے کہ رب کریم ہم سب کو اپنی حیثیت اور اپنے مقام کا تعین کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ایسی اعلی اقدار سے نوازے کہ ہماری زبان ہمارا وجود ہمارا رویہ کسی کی بھی دل آزاری کا باعث نا بنے۔ آمین

Social Sharing

Leave a Reply