کبوتر کی سیان اور عقل کیسے دیکھی جائے۔ سینئر اساتذہ کرام کہتے ہیں کہ جس کبوتر کی آنکھ مینڈک کی طرح باہر کو ابھری ہوئی ہو. انتہائی شفاف ہو، کھلی آنکھیں یعنی وسیع ہوں، پلک نفیس اور باریک ہو، کالا نور باریک ہو اس کا جھکاؤ نوک کی طرف ہو۔ کچھ اساتذہ جامن پنجوں اور باریک پنجوں کو بھی سیان کی نشانی بتاتے ہیں۔
By: Ustad Habeeb Mughal
میرے نزدیک کبوتر کی سیان، عقلمندی کا پیمانہ کیسے دیکھا جائے ناپا جائے یا محسوس کیا جائے میرے ابھی تک مشاہدے سے ایک بات دیکھی ہے۔ عقل، سیان کبوتر کے کسی حصہ سے محسوس نہیں کی جاسکتی۔ ہر نسل کی سیان کی اپنی اپنی حدود ہیں۔
مثال دیتا ہوں کہ ایک فینسی کبوتر کی عقل انتہائی محدود ہوتی ہے اور ہائی فلائیر کی بہت زیادہ۔ اب ہائی فلائیر میں ہر نسل کی سیان کا اپنا معیار ہے۔ سیالکوٹی کا الگ، ٹیڈی کا الگ اور کمگر کا الگ فیروزپوری کا الگ، معاملہ انسانوں جیسا ہی ہے۔
کسی کا بچہ پانچ سال میں حفظ کرلیتا ہے کوئی بچہ بارہ سال میں ناظرہ قرآن مکمل کرتا ہے۔ کچھ ساری عمر پڑھ ہی نہیں پاتے۔مطلب ہر نسل میں انتہائی عقلمند اور انتہائی بے وقوف پرندے بھی پائے جاتے ہیں۔۔
کبوتر کی سیان اور ہماری غلطیاں
مگر کچھ پرندے بے وقوف نہیں ہوتے ان کے گھر سے باہر رہ جانے میں دوسرے عوامل کارفرما بھی ہوتے ہیں. جیسا کہ لیٹ بچہ اڑانے سے اس کا جسم فربہ ہوجاتا ہے جلدی سانس چڑھتا ہے۔ بھرے پوٹ سے اڑانے سے بھی پرندے گر جائے گا۔ بیمار پرندے کو اڑانے سے، ناموافق موسم میں اڑانے سے، کریز میں اڑانے سے اور غلط کیمیا گری سے۔ دوران پرواز کڑل پڑنے، کاربوہائیڈریٹس ختم ہوجانے سے وغیرہ وغیرہ۔
اب اوپر بیان کی گئی صورتوں میں جب بھی پرندہ ضائع ہو سمجھیں کبوتر کی سیان میں کمی نہیں۔ اب ایک اور ممکن نکتے پر بات کرتے ہیں۔ ایک کبوتر بہت ہی عقلمند ہے اس کے پر اس قابل نہیں کہ وہ انہیں استعمال کرکے گھر پہنچ سکے تو وہ بھی ضائع ہوگا۔ مگر اس کو بے وقوف یا بھگوڑا نہیں کہا جاسکتا. مطلب کہ سیان ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے پر ہونا بھی ضروری ہے۔