کبوتر کی آنکھ اور حقیقت – اسلام علیکم پیارے دوستو آج آپ سے خدا کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک خاص نعمت آنکھ پر اپنے خیالات اور تجربہ شیئر کرنے کی کوشش کروں گا۔ اس کا بے شک کام دنیاوی رنگینوں اور حالات سے خدوخال روشناس کرانا ہے۔ اس کے بغیر چرند پرند انسان مطلب ہر جاندار کی زندگی تاریک ہے۔ میرے کچھ دوست مجھے کہتے ہیں آپ کی منطق بلکل عجیب ہوتی ہے۔ جو سب سے الگ ہوتی ہے اور وہ درست نہیں ہوتی ۔ مکمن ہے وہ اپنی جگہ درست ہوں ہر اک کا سوچنے کا الگ الگ طریقہ کار ہوتا ہے۔
تحریر: استاد مہر زمان شاگرد استاد اکرام پہلوان صاحب
دوستو آنکھوں کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ آیئنہ ہیں۔ بلکل یہ آیئنہ ہیں مگر جس کی ہوں اس کے لیے۔ ہر ایک کے لیے اس کی آنکھ اس کے لیے ایک آیئنہ ہی ہے۔ کیونکے وہ اسے ہر چیز سے روشناس کرواتی ہے۔ اچھا اب اگر انسانوں کی طرف جایئں تو ان آنکھوں سے ہم بہت کچھ دیکھنے کی کوشش بھی کرتے۔ مثال کے طور پر آنکھوں میں چمک کو خوشی یا کامیابی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ جب کے جب وہی چمکیلی آنکھ ڈھل ہو جائے تو اس میں کلروں کی چینجنگ کی بنیاد پر بیماری، نقاہت یا افسردگی بیان کرتی ہے۔
مختلف رنگ
ڈاکٹر انہی آنکھوں کے بدلے کلروں کو دیکھ کر بیماری کی قسم کا تعین بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دوستو آنکھیں جیسے روح کی کھڑکی ہوتی ہیں ویسے ہی یہ شخصیت کا آیئنہ بھی ہوتی ہیں۔ انسانی آنکھوں کو سائنسی بنیادوں کو کلر کے اعتبار سے مختلف احساسات پر متعین کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جیسے کالی پتلیوں والے افراد کے بارے میں کہا جاتا یہ کر گزرنے والی اکثریت رکھتے ہیں۔ ایسے آنکھوں کے لوگ کم ہی دھوکہ باز ہوتے ہیں۔ جبکے زمینی کلر کی آنکھ دنیا میں زیادہ ہے اسے سادگی، طاقت یا تخلیقی صلاحیتوں سے منسوب کرتے ہیں۔ ایسے لوگ نئے نئے دوست بنانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ جبکے نیلی آنکھیں کم مگر نہایت پر کشش اور ہر اک کو اپنی طرف مائل کر لینے والی ہوتی ہیں۔ ایسی آنکھوں والے لوگ دھیمہ لہجہ رکھنے کے ساتھ ساتھ احترام دینے والے۔
بہر اسی طرح ان کو بیان کرنے لگوں تو وقت کا ضیاع سمجھا جائے گا کیوں کے میرا موضوع اپنے شوق سے ہٹ جائے گا۔ ایک اہم بات اور نقطہ جو بولا جاتا ہے وہ یہ ہے کے آنکھیں جھوٹ نہیں بولتی۔ دوستو یہ اب جملہ پرانا ہو چکا ہے۔ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آنکھیں جھوٹ نہیں بولتی صرف اس کے لیے جس کی ہیں۔ دوسرے کے لیے تو یہی جھوٹ کا آجکل سب سے اہم جز ہے۔ انسانوں میں بڑے بڑے بادشاہ انہی حسین آنکھوں کے جال میں پھنس کر سلطنتوں کو گنوا بیٹھے۔ اوپر بیان گئی سب نشانیاں بھی حتمی نہیں صرف مفروضے ہی ہیں ۔
ڈربی میں پڑے کبوتر کی آنکھ اور حقیقت
کبوتر کی آنکھ اور حقیقت – میرا اصل تحریر کا پوائنٹ ہمارے شوق میں آج کا سب سے بڑا دھوکہ بھی یہی آنکھ ہے۔ آجکل کے دوکانداروں نے دیہاڑی دار استادوں نے ایسی ایسی دھوکے باز آنکھیں بنا دی ہیں جو کسی بھی شوقین کو دھوکہ دے سکتی ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ بے شمار نئے پرانے شوقین اس دھوکے کا بڑے آرام سے شکار ہو رہے ہیں۔
آپ ڈربیوں میں چلے جائیں آپکو مسحور کر دینے والی پرندوں کی آنکھیں مل جایئں گی۔ یہی تو وہ آنکھیں تھیں جن نے بادشاہوں کی سلطنتیں تباہ کر دیں۔ لہذہ اب آنکھوں تک ہی مت رہیں، جسامت، پر، باڈی سٹرکچراور آنکھوں پر یقین کرنے کے بعد سب سے اہم چیز آسمان و میدان کو پرکھنا مت بھولیں ۔ ورنہ آپ بھی ہمیشہ اپنے آپکو دھوکہ دینے والوں میں شمار ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ یہ یاد رکھ لیں اگر خوبصورت چیزوں کو ہی یاد رکھا جاتا ہے تو دور حاضر میں خوبصورت چیزیں ہی جھوٹ بولتی ہیں۔ نارمل یا بے رنگ چیزوں کا کوئی گاہک نہیں۔ یہ چیز اب لوٹنے والوں اور ٹھگوں کو بھی سمجھ آ چکی ہے۔ لہذا آنکھیں بھی جھوٹ بولتی ہیں۔ استاد مہر زمان شاگرد استاد اکرام پہلوان صاحب