اسوج کی تیاری اور ہماری کبوتر بازی کا شوق

اسوج کی تیاری اور ہماری کبوتر بازی کا شوق: اسلام علیکم پیارے عزیز اور شوقین دوستو۔ امید ہے سب دوست بفضل الہی خیر عافیت سے ہونگے انشاء اللہ۔ اسوج کی تیاری میں سب دوست مصروف ہیں اور جلد ہی کبوتر جالوں سے نکالنا شروع کر دیں گے۔ کچھ تو جلد باز شوقین کبوتر باہر نکال بھی چکے ہونگے۔ پھر پھڑکوں کا سلسلہ بھی باقاعدگی سے شروع ہو جائے گا۔ اسوج کا کبوتر پروری کا میلہ شوقینوں کے لیے کہیں انجوائے کہیں خوشی اور کہیں غم کا ماحول بھی پیدا کرے گا۔ ایسا ہر کھیل میں ہر میدان میں ہوتا ہے کوئی ہار جاتا ہے اور کوئی جیت جاتا ہے۔

تحریر: استاد خان محمد بارا لاہور

جو پچھلے سال شکست کا مزہ چکھ چکا ہوتا ہے وہ سخت محنت اور اچھی تیاری کر کے میدان میں اترتا ہے اور اپنی جیت کو یقینی بناتا ہے۔ یہ اسی طرح چلتا ہے میدان ہمیشہ کسی ایک کا ہو کر نہیں رہتا۔ میدان سب کو خوشیاں بھی دیتا ہے اور ساتھ ہار کے غم سے بھی دوچار کرتا ہے۔ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اگر کوئی ایک شوقین اپنے محلے کے شوق میں یا گاوں کے شوق میں اسی طرح قصبہ شہر تحصیل ضلع یا پورے صوبے کا ہر سال چیمیئن رہیگا پھر تو شوق بدمزہ ہو جائے گا۔ ہار کا خوف ہی جیت کا مزہ دوبالا کرتا ہے۔ ہار نا ہو تو جیت کی تو چاشنی ہی بدمزہ ہو جائے۔

کبوتر بازی کے کھیل میں جیت اور ہار

ویسے بھی ہم سب شوق کرتے ہیں تو ہم کتنے ہی بڑے فنکار مہان اور چوٹی کے استاد بھی ہو جائیں پھر بھی اپنے مالک سے اپنی جیت کے لیے دعا ضرور کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم صرف اچھی سے اچھی کوشش کر سکتے ہیں۔ اللہ کریم کی لکھی ہوئی تقدیر کو نہیں بدل سکتے۔ جب سب کا ایک اللہ ہے تو سب ہی اسی کو پکارتے ہیں۔ مالک ہونے کے ناتے وہ سب کی سنتا ہے اور اس کی اپنی منطق ہے۔ کسی کو جیت کی خوشیاں دیتا ہے اور کسی کو ہار کی مار سہنی پڑھتی ہے۔

دوستو آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ پچھلے سال جس ترتیب اور ترکیب سے ہمارے کبوتر بہت اچھی پرمارمنس دے چکے ہوتے ہیں وہی تیاری کی ترتیب اور ترکیب اگلے سال بالکل بھی کام نہیں کرتی۔ اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ جب رب کریم کسی کو نوازنا چاہتا ہے تو اس کے کام میں برکت ڈال دیتا ہے۔ یہ رب کریم کی بہت بڑی نوازش اور مہربانی ہوتی ہے۔ لیکن وہی ترتیبیں اور ترکیبیں بے اثر اور بیکار ہو جاتی ہیں جب ان میں سے اللہ کریم کی عطا کی ہوئی برکت اور کرم اٹھ جاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ یہ برکت اور کرم کیوں اٹھ جاتا ہے ؟؟؟

کیوں جیت دلوانے والی تیاری اور دانہ پانی بے اثر ہو چکے ہوتے ہیں۔ طریقہ سنبھال بھی وہی ہوتا ہے دانا پانی بھی وہی ہوتا ہے۔ دن بھی ویسا ہی ہوتا ہے لیکن رزلٹ بہت ناقصاور نآمیدی پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔

کبوتر بازی کے کھیل میں تکبر

بہت آسان ہے اس بات کو سمجھنا اگر کوئی سمجھنا چاہے تو۔ نہائیت معزرت کے ساتھ گزارش ہے کہ انسان بہت ناشکرہ ثابت ہوا ہے۔ اپنی جیت کو اپنے فن کے نام کر دیتا ہے۔ تکبر اور غرور میں ڈوب جاتا ہے۔ باقی سب شوقینوں کو کم علم اور خود کو عالم تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے اور جیت کے نشے میں  ایسی ایسی مغرور اور لغو باتیں کرنا شروع کر دیتا ہے جو کسی بھی انسان کے شایان شان نہیں ہوتیں۔

اپنی ہستی کو انمول اور ناقابل تسخیر تصور کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیت کے نشے میں ایسا دھت ہوتا ہے ایسا ڈوبتا ہے کہ پھر اس سے باہر ہی نہیں نکلتا۔ خدا کی قسم جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے۔ یہ سب صفات صرف اور صرف اللہ کریم کا ورثہ ہیں۔ اس کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں۔

اسوج کی تیاری

اللہ کریم ہمیں کوئی بھی اعلی منصف دیکر ہمارے خلوص کی جانچ کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ خوشی میں ہم اپنی حدود کو نظر انداز تو نہیں کر رہے۔ کیا ہم جیت کی خوشی میں اپنی اصل کو روند کر اپنی آخری لائن تو کراس نہیں کر رہے۔ کہیں ہم ناشکرے تو نہیں ہیں۔ ہم خوشی یا غم پا کر اللہ سے دوری تو اختیار نہیں کر رہے۔

افسوس کہ ہم اپنی اصل میں نہیں رہتے۔ یہی انسان کی بربادی ہے۔ بندگی کی بجائے تکبر اور آہنکار کو ماتھے پر سجا لیتے ہیں۔ جیت اور خوشی ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ اسی طرح ہار میں بھی ہمارا امتحان ہوتا ہے جیت میں بھی۔

اسوج کی تیاری میں ہار میں سے جیت کا راستہ تلاش کریں

 اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور شکر ادا کرتے ہوئے یہ بھی اپنی زبان سے اقرار کرنا چاہیے کہ مولا کریم میں تیری رحمت سے تیرے اذن سے کامیاب ہوا ہوں۔ تیری رضا شامل نا ہو تو میرا کوئی بھی کام کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح ہارنے والے کو بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور یہ بھی کہنا چاہیے کہ اے مولا کریم اگر تجھے میرا ہارنا پسند ہے تو میں تیری رضا میں راضی ہوں۔

تکبر غرور اور اپنی ہستی سے بڑی بات اللہ کو ہرگز ہرگز پسند نہیں۔ ہارنے والا ان باتوں کے علاوہ اپنی غلطیوں کو بھی نوٹ کرے کہ مجھ سے کہاں کہاں اور کس موقع پر خرابی ہوئی ہے۔ ان غلطیوں کوتاہیوں کا نوٹس لے اور آئیندہ شوق میں وہ غلطیاں نا دھرائے۔ جیتے والا مزید محنت کرے تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ایک اچھا شوق نا ہو ۔

ہار ہو تو اسے صدق دل سے تسلیم کریں جیتنے والے کو مبارک دیں۔ ہار میں سے جیت کا راستہ تلاش کریں۔ ہر جیت ہار میں سے نکل کر آتی ہے۔ ہر میدان کی ہار کے اندر جیت ہوتی ہے۔ اسے ہار سے نکالنے کا گر سیکھیں سچائی اور لگن کے ساتھ شوق کریں۔ بےایمانی سے دور رہیں۔

کبوتر بازی میں بے ایمانی سے جیتی ہوئی گیم

بے ایمانی سے جیتی ہوئی گیم کبھی بھی دل میں وہ خوشی نہیں پیدا کر سکتی جو حق سچ کی جیت کرتی ہے۔ اس لیے کوئی بھی میدان ہو اس میں ایمانداری سے کھیلیں۔ اپنی صحیح اور سچی محنت پر توجہ دیں۔ باقی سب مالک حقیقی پر چھوڑ دیں۔ اس کے فیصلے کبھی ناقص نہیں ہوتے۔

جو گیم آپ کے پاس ہے جیسی بھی تیاری ہے اسی پر اکتفا کریں۔ اپنا کسی سے موازنہ نا کریں کہ فلاں کے پاس اتنے زیادہ  کبوتر ہیں اور میرے پاس کم ہیں۔ اگر زیادہ کبوتر رکھنے سے جیت کی گارنٹی ہوتی تو ہزاروں کبوتر پالنے والے ہی ہر سال جیت جائیں۔ ایک چیز ذہن میں رکھیں اگر آپ کے مخالف کا دن ۱۲ یا ۱۳ گھنٹے کا ہے تو آپ کا بھی اتنا ہی ہے۔ اگر آپ کے مخالف نے سات یا گیارہ کبوتر اڑانے ہیں تو آپ نے بھی اتنے کبوتر ہی اڑانے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مقابلہ زیادہ کبوتروں کا نہیں بلکہ زیادہ محنت اور زیادہ سمجھ بوجھ کا ہے۔ جو زیادہ عقلمندی سے تیاری کریگا اور عقلمندی سے کبوتر مقابلے میں اتارے گا جیت کا چانس بھی زیادہ اسی کا ہو گا اگر اللہ کی مرضی شامل ہوئی تو۔

اسوج کی تیاری اور ہماری کبوتر بازی

یہ شوق یہ کھیل ہم سب کا مشترکہ کھیل ہے۔ اپنی سچل گیم سے ہم اس شوق کا قد مزید اونچا کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی کھیل کوئی بھی میدان کسی کا دوست نہیں ہوتا۔ ہر کھیل کے میدان کو تسخیر کرنا ہوتا ہے اپنے کمال فن سے، کمال مہارت سے، اور کمال جدوجہد سے۔ جو جیتا ہے پھر وہی سکندر کہلانے کا حقدار بھی ہوتا ہے۔ اس لیے جس کھیل سے دنیا ہمارے نام سے واقف ہوتی ہے جو کھیل ہمیں عزت اور خوشیوں سے نوازتا ہے ہماری خاص پہچان بناتا ہے ہمارے حلقہ احباب کو مزید وسیح تر کرتا ہے اس کھیل کی عزت و تکریم بھی ہم سب پر فرض ہے۔

 ہم پر فرض ہے کہ اپنے اس کھیل کو معاشرے میں عزت کا مقام دلائیں۔ اس کھیل کی مزید تعمیر کریں۔ اس سے وابستہ برائیوں کو دور کریں۔ سیاست سے پاک کریں۔ یقین کریں ہمارے اس پیار محبت اور امن کے شوق کو جتنا نقصان سیاست نے پہنچایا ہے کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا۔ خدارا اس پر خلوص شوق کو سیاست سے پاک کریں۔ اس کو تعمیری بنائیں تاکہ اس شوق سے نفرت کے عنصر کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا جائے۔

آخر میں سب شوقین دوستوں کے لیے میری نیک تمنائیں ہیں۔ اللہ کریم سب کے شوق میں ترقی دے اور اس اسوج کی تیاری میلہ کی رونقیں مزید نکھارے آمین۔ کوئی بات بری لگی ہو تو پیشگی معزرت قبول فرمائیں ۔


Social Sharing

Leave a Reply