اسلام علیکم کچھ دوست سوال اٹھا رہے تھے کہ اسوج کی پرپٹائی کیسے کی جائے۔ اس پر میری کچھ ناقص سی گزراشات ہیں جن پر عمل کر کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ سال میں ایک کبوتر کو دو بار پرپٹائی بالکل بھی نا کیا کریں کیونکہ یہ اصول فطرت کو چھیڑنے والی بات ہے۔ وہ اس لیے کہ سال میں ایک کبوتر ایک بار ہی قدرتی طور پر اپنے وجود کے سارے پر جھاڑتا ہے۔ اگر ہم ایک ہی کبوتر کو ایک سال میں دوبار پٹائی دیتے ہیں تو نظام فطرت کو چیلنج کر رہے ہوتے ہیں اور اس عمل سے کافی نقصانات اٹھاتے ہیں ۔
تحریر: استاد خان محمد بارا
ایک سال میں دو بار پرپٹائی کے نقصانات
پہلا نقصان کیلشیم کی مقدار کم ہونے سے اکثر کبوتروں کے پر پورے نہیں نکلتے۔ اگر پورے نکل بھی آئیں تو ان پروں میں اتنی جان نہیں رہتی یعنی کمزور پر نکلتے ہیں۔ دوسری خرابی یہ ہوتی ہے کہ کبوتر کے کندھے کے پٹھے کمزور پڑھ جاتے ہیں۔ آئندہ پرپٹائی پر مزید خراب پر نکالتے ہیں اور ان پروں کی پیکنگ بھی متاثر ہو جاتی ہے۔
تیسری خرابی یہ ہوتی ہے کہ کبوتر جسمانی طور پر بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ اسے ایکسٹرا انرجی استعمال کر کے پرپٹائی کے پروسیس کو پورا کرنا پڑھتا ہے۔ جو اکثر کبوتروں کی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ چوتھا نقصان جسم میں ان تغیرات کے وقوع پزیر ہونے سے دوران پرواز کبوتر زیادہ مقدار میں واپسی نہیں کر پاتے۔
ہر وہ کام جو کسی بھی جاندار میں نظام قدرت کو ڈسٹرب کرتا ہے اس کا سو فیصد رد عمل آتا ہے۔ وہ ردعمل بہت نقصان کرتا ہے اس لیے ہر چیز کو اس کی فطرت پر ہی رکھیں ۔ اپنی فطرت پر پروش پانے والی ہر جاندار چیز بہترین رزلٹ دیتی ہے۔ اس لیے اسوج کے کبوتر علیحدہ ہونے چاہیے۔ بیساکھ جیٹھ کے کبوتر علیحدہ ہونے چاہیے۔ تاکہ ایک ہی سیزن میں ڈبل پرپٹائی سے بچا جا سکے۔
بچوں کی پرپٹائی
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ پرپٹائی کے دوران بچوں کے پر بھی نکال دیے جاتے ہیں جو سراسر زیادتی ہے۔ ایسا کرکے بھی ہم نظام قدرت کے خلاف جاتے ہیں۔ جس کا سرا سر نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس کے نقصانات کی مثال یہ ہے کہ جب بازی قریب آتی ہے تو وہ بچے جن کے پر اکھاڑے گئے ہوتے ہیں ان میں سے صرف وہی بچتے ہیں جو بہت کم اڑتے ہیں۔ اچھا اڑنے والا ایک آدھ ہی بچتا ہے۔ اس طرح ہم بچوں کی اچھی خاصی تعداد ضائع کر بیٹھتے ہیں ۔ اگر وہی بچے اصول فطرت کے مطابق اپنے پر گرا کر مکمل کریں تو بہترین پروازیں دیتے ہیں۔
کبوتروں کی ڈی ورمنگ اور پرپٹائی
کبوتروں کی ڈی ورمنگ پرپٹائی سےکم از کم ایک مہینہ پہلے کریں اگر ایک ہفتہ یا اس کم وقت میں ڈی ورمنگ کر کے پرپٹائی کریں گے تو اکثر کبوتر کمزور پر نکالیں گے کیونکہ کیڑوں کو مارنے والی ہر دوائی کیلشیم اور وٹامن سی کی کمی کا باعث بنتی ہے لہذا اس عمل سے بھی بچا جائے۔
پرپٹائی میں میڈیسن کا استعمال
دوران پر پٹائی بلاضرورت کسی بھی میڈیسن کا استعمال نا کریں کیونکہ اکثر دوائیاں ری ایکشن کر جاتی ہیں۔ وہ ریکشن بظاہر نظر نہیں آتا. لیکن پرپٹائی میں خاصا نقصان دہ ہوتا ہے۔ جن سے پروں کا نقصان ہونے کا احتمال باقی رہتا ہے. کیلشیم دینے سے سختی سے پرہیز کریں. کیونکہ ایکسٹرا کیلشیم اگر کبوتر کو ملے تو وہ ضرورت سے زیادہ پر لمبے کر جاتے ہیں اور کبوتر اڑنے کے بالکل بھی قابل نہیں رہتا۔
دوران پرپٹائی ایسی کوئی خوراک کبوتروں کو نا دیں جن سے کبوتر وزن بڑھا جائیں اسوج میں کوشش کریں کہ کبوتر مکمل ہو تو وہ لائٹ ویٹ ہو ایسے کبوتر ضائع ہونے کی ریشو بہت ہی کم ہوتی ہے۔
بیساکھ اور اسوج کی شروعاتی پھڑکوں کا فرق
بیساکھ میں کبوتر نرم موسم میں اڑنا شروع ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ گرمی میں آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کبوتر خود کو گرمی کے مطابق ڈھال چکے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسوج میں کبوتر گرمی حبس اور ضرورت سے زیادہ نمی کے موسم میں اڑنا شروع کرتے ہیں. نئے پر ہونے کی وجہ سے وزن والے کبوتر آسمان تو چلے جاتے لیکن گرمی اور نمی کا تناسب ضرورت سے زیادہ ہونے کی وجہ سے کبوتر کے پھیپھڑے مطلوبہ آکسیجن حاصل نہیں کر پاتے. اکثر واپسی نہیں کرتے اور باہر گر جاتے ہیں۔
کبوتروں کے پر مکمل ہونے کے بعد کا عمل
کوشش کیا کریں کہ اسوج میں جن کبوتروں کی پرپٹائی کی ہے ان کو کم از کم 60 دن کے بعد باہر نکالیں۔ تاکہ کبوتر پر اچھی طرح خشک کر لیں۔ اس سے ان کی واپسی بہت بہتر ہو جائے گی۔ شروعاتی پھڑکوں میں جب کبوتر باہر نکالیں تو ان کو چالیس سی سی پانی
دیکر باہر چھوڑیں تاکہ باہر نکلتے ہی اڑ نا جائیں۔ اگر کوئی اڑ بھی جائے دس بیس منٹ میں بیٹھ جائے اور بلندی تک نا جا سکے۔
ایک ہفتہ یہی عمل دھرائیں اس کے بعد پانچ سی سی کے حساب سے پانی کی مقدار کم کرنا شروع کردیں اور دس سی سی پر آکر اس عمل کو بند کر دیں ۔ اس طرح اسوج میں کبوتروں کے بھاگ جانے کی ریشو کو کم کیا جا سکتا ہے۔ اور اپنے شوق کو بہتر سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔
One Comment on “اسوج کی پرپٹائی کب اور کب اور کیسے کریں ؟”