بانکے کبوتر کی تاریخ پر ایک نظر۔ بانکے کبوتروں کے متعلق جب ہم جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی تاریخ ہمیں تقریباً 115 سال پہلے متحدہ برصغیر میں لے جاتی ہے۔
تحریر استاد حبیب مغل
ایک روایت یہ ملتی ہے کہ نواب رستم علی خان والی ء رام پور کے بہنوئی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوگئے کہ ان کے پاس موجود طبیب حضرات اپنی تمام کوششوں میں ناکام رہے۔
ایسے میں نواب شیر خان کے والد حکیم نواب سردار خان جوکہ ایک جید اور مسند طبیب تھے نے ان کی علاج کا ذمہ اٹھایا۔ اللہ پاک نے انہیں شفاء دی۔ نواب شیر خان کے والد خود کھاتے پیتے اور صاحب ثروت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
وہ علاج کے پیسے نہیں لیتے تھے۔ نواب رستم علی خان کے اصرار کے باوجود انہوں علاج کا معاوضہ نہ لیا۔ جب نواب رستم علی خان نے زیادہ اصرار کیا تو نواب سردار خان نے ان سے یہ کہا کہ میرے بیٹے کو کبوتروں کا بہت شوق ہے۔ تو نواب رستم علی خان نے دو جوڑے انتہائی اعلٰی نسل کے رام پوری کبوتروں کے تحفتاً نواب سردار خان کو عنایت کئے۔ یہ کبوتر ایسے قیمتی اور نواب صاحب کے پیارے تھے کہ ان کبوتروں کو نواب رستم علی خان اپنی خوابگاہ میں رکھتے تھے۔
ان کبوتروں میں سے ایک نر نواب شیر خان نے فیروز پوری مادہ سے لگایا۔ تو ایسے شاندار اور تن آور بچے نکلے کہ نواب شیر خان نے برجستہ کہہ دیا واللہ یہ تو نواب ہیں۔ یہ بانکے نواب ہیں۔ اس دور میں نواب خاندان کے ان نوجوانوں کو بانکا کہا جاتا تھا جو بے خوبصورت ہوتے تھے۔ وی چست پاجامہ کرتا اور اوپر پھندنے والی ٹوپی پہنے جب سینہ تانے باہر نکلتے تو انہیں بانکا نواب کہا جاتا ۔
بانکے کبوتروں کی جسمانی ساخت
بانکے کبوتر نوک سے لے کر کندھوں اور نیچے سینے تک گہرے سبز رنگ میں ہوتے ہیں۔ پہلی نظر میں کلسرے کبوتر لگتے ہیں۔ ان میں سفید ماتھے (بلے) کبوتر نہیں ہوتے۔ نوک مضبوط اور چھوٹی جبڑوں سے سفیدی مائل۔ ان کی آنکھیں ذرے دار گرے Grey ہوتی ہیں مگر جیسے جیسے عمر رسیدہ ہوتے جاتے ہیں آنکھوں میں جال لے آتے ہیں۔
بعض بانکے کبوتروں میں ہلکا گلابی پن بھی نظر آتا ہے۔ پلکیں گرے یا ہلکی پیلی اور کنارے کے دندانے باریک ہوتے ہیں۔ گردن پر اکثر کتھے رنگ کے پر بھی ہوتے ہیں۔ چلتے پھرتے موٹے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر ہاتھ میں پکڑیں تو زیادہ تر پر اور گوشت کم۔ دم کالی سیاہ بغیر بندھ کے۔
بانکے کبوتر اور ان کی عادات
یہ کبوتر بھی بے حد حساس ہوتے تھے۔ اپنے گھر سے ایسا گہرا لگاو رکھتے کہ دوسری جگہ جا کر دانہ کھانا چھوڑ جاتے۔ ایک دفعہ میں ایک بچے کو دھوپ میں دیکھنے کے لئے ہاتھ میں پکڑ کر ابھی باہر بھی نہ نکلا تھا کہ اس نے تڑپ کر ہاتھ میں جان دے دی۔
اصل بانکے کبوتر ایسے تن کر کھڑے ہوتے تھے کہ دم اور پر زمین سے جالگتے ہیں۔ واضح پتہ لگتا تھا کہ پیچھے کیجانب دباو ہے۔ پاس جانے سے ایسی کپکپاہٹ کرنے لگ جاتے تھے کہ جیسے ابھی جان دے دیں گے۔
بانکے کبوتر سلیٹے بچے بھی نکالتے ہیں۔ مگر یہ سلیٹے آپس میں لگانے سے کلسرے بچے نہیں نکالتے۔ بانکے کبوتر کالی اور چاندی آنکھ کے بچے بھی نکالتے۔ انہی کبوتروں سے رام پوری کبوتر بھی نکلتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا کہ بانکے کبوتر رام پوری کبوتروں سے وجود میں آئے۔
اچھی معلومات ہو سکے تو لالہ بنسی رام کے بنائے سیالکوٹی سفید چہے کبوتروں کی تاریخ بھی بتا دیں